آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر (اے ایس ڈی) شناخت کرنے کا ایک نہایت قابلِ اعتبار ٹیسٹ وضع

بیماری

ڈیوس (پاک صحافت) آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر (اے ایس ڈی) ایک ایسا مرض ہے جس سے ترقی پذیر ممالک میں ہر پانچ میں سے ایک بچہ اس کا شکار ہے اور اسی طرح پاکستان میں بھی ایسے بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق جامعہ کیلیفورنیا، ڈیویس اور اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے 450 ایسی ماؤں کے خون میں پلازما کا جائزہ لیا جن کے بچے آٹزم کے شکار ہوئے تھے۔ ساتھ ہی 342 مائیں ایسی تھیں جن کے بچے اس تکلیف دہ کیفیت سے آزاد تھے۔

تفصیلات کے مطابق ماہرین نے ELISA نامی ایک ٹیکنیک سے خاص اینٹی باڈیز اور پروٹین کا جائزہ لیا۔ معلوم ہوا ہے کہ بعض حاملہ خواتین میں 8 کے قریب ایسے پروٹین پائے جاتےہیں جو دورانِ حمل ان میں غیرضروری امنیاتی ردِ عمل جگاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے پیٹ میں موجود بچے کا دماغ شدید متاثر ہوتا ہے اور وہ آٹزم جیسے عمر بھر کے روگ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس طرح معلوم ہوا کے حمل کےدوران پل پل بڑھتا ہوا بچے کا دماغ پروٹین اور اینٹی باڈیز سے یہاں تک متاثر ہوسکتا ہے کہ وہ آٹزم کا شکار ہوجاتا ہے۔

واضح رہے کہ اسی طرح کی ایک تحقیق 2019 میں کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ پرامید ماؤں کے جسم سے ازخود آٹواینٹٰی باڈیز خارج ہوتی ہیں۔ اس کا اثر بچے کے اعصابی خلیات پر ہوتا ہے۔ اس طرح پیدا ہونے والے بچے آٹزم کے شکار ہوسکتےہیں۔ لیکن حالیہ تحقیق میں ماہرین نے ڈیٹا، مشین لرننگ کو استعمال کرتے ہوئے آٹھ پروٹین کےممکنہ اثرات کو نوٹ کیا ہے۔ اس کےعلاوہ خون میں ’کولاپسن ریسپانس میڈی ایٹر پروٹین (سی آر ایم پی) اور گوانائن ڈیمائنیز (جی ڈی اے) جیسے بایومارکر کو بھی نوٹ کیا گیا۔

خیال رہے کہ اس کے بعد ماہرین نے نتیجہ نکالا کہ ماں کے خون میں پائے جانے والے آٹھ پروٹین ایسے ہیں جو بچے میں آٹزم پیدا کرتےہیں۔ ان میں سی آر ایم پی ون اور جی ڈی اے جس ماں میں پائے جائیں ان میں دیگر کے مقابلے میں آٹزم میں مبتلا بچوں کی پیدائش کا خدشہ 31 گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ اس مطالعے کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ ماہرین دورانِ حمل یہ بتاسکتے ہیں کونسا بچہ اپنی عملی زندگی میں آٹزم کا شکار ہوسکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے