اسلام آباد (پاک صحافت) قومی اسمبلی میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے انتخابات ایکٹ ترمیم بل پر کمیٹی کی رپورٹ بھی پیش کردی جبکہ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل زیرِ غور لانے کی تحریک ایوان میں منظور کی گئی۔
تحریک بلال اظہر کیانی نے پیش کی جبکہ اپوزیشن نے اس کی مخالفت کی۔ علاوہ ازیں علی محمد خان نے ترمیمی بل پر ترمیم پیش کی جسے کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا۔۔قومی اسمبلی اجلاس میں علی محمد خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کیا پارلیمنٹ کا یہ کام ہے کہ سیاسی مقاصد کیلئے سپریم کورٹ پر حملہ کرے، قانون سازی کر کے آپ مجھے جائز حق سے محروم نہیں کرسکتے۔
علی محمد خان نے کہا کہ مخصوص نشستوں کا حق ہمیں سپریم کورٹ سے مل گیا ہے، ہمیں کیسے ہمارے حق سے محروم کیا جاسکتا ہے، سپریم کورٹ نے کہا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی ہے اور رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن سے پوچھا کہ کیا 39 ارکان کے لیے پی ٹی آئی حلال اور 41 کیلئے حرام ہے؟ ہم اس ترمیمی بل کو مسترد کرتے ہیں، قانون سازی ضرور کریں لیکن یہ ملک کے مفاد میں ہونی چاہیے، اس قانون سازی کے خلاف عدالت جائیں گے۔
اجلاس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ بولے کہ یہ قانون سازی آئین کی روح کے عین مطابق ہے غیر آئینی نہیں، علی محمد خان نے کہا کہ یہ قانون سازی ہمارا راستہ روکنے کیلئے ہے، ان کے 41 ارکان نے حلف نامے دیے کہ ان کا تعلق سنی اتحاد کونسل سے ہے۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آپ کے وکیل نے کہا مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کیلئے مانگ رہے ہیں، جس جماعت نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا اسے مخصوص نشستیں نہیں دی جاسکتیں، ہم کسی جرم میں ترمیم کرنے نہیں جارہے۔
انہوں نے کہا کہ قانون سازی آئین کی روح کے عین مطابق ہے یہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے، ان کے 81 لوگوں نےحلف نامہ دیا کہ ان کا تعلق سنی اتحاد کونسل سے ہے پی ٹی آئی سے نہیں، آج یہ اپنے حلف ناموں سے مُکر رہے ہیں۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ دو ججز کے اختلافی نوٹ میں تمام وجوہات درج ہیں، تحریک انصاف نے خود بھی یہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے کا مطالبہ کیا تھا، اپوزیشن حقائق مسخ نہ کرے ہم قانون کو واضح کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اس بل میں کہا گیا ہے کہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا اقرار نامہ تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔