دمشق {پاک صحافت} ایک عرب تجزیہ کار نے لکھا ہے کہ حقیقت پسندی کی پالیسی پر بھروسہ کرتے ہوئے عمان نے آخر کار یہ جان لیا کہ شام میں حکومت کی تبدیلی کے مسئلے کو مسترد کر دیا گیا ہے اور اس کے علاوہ واشنگٹن کی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے اردن کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کے لیے دمشق سے رابطہ کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

روسی صدارتی محل (کریملن) نے گزشتہ جمعہ کو ایک بیان میں اعلان کیا کہ روسی صدر پیر (آج) ماسکو میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم کی میزبانی کریں گےجبکہ پوٹن اور عبداللہ دوم کے درمیان آخری ملاقات اکتوبر 2019 میں روس کے شہر سوچی میں ہوئی، عربی 21 تجزیاتی سائٹ نے محمد العرسان کے لکھے ہوئے ایک کالم کو شائع کیا ہے جس میں انھوں نے ماسکو میں ہونے والے اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس اجلاس کی مرکزی توجہ شام کے مسئلے پر تھی اور امان کے خدشات کہ مزید نقصانات سے بچنے کے لیے دمشق کے لیے اپنی خارجہ پالیسی میں اصلاحات لائی جائیں۔
انھوں نے مزید لکھا ہے کہ حال ہی میں اردن کی قیادت میں ایک سفاری تحریک شروع ہوئی ہے جس میں ایک اہم مسئلہ شام کا مسئلہ ہےجہاں اردن کی بادشاہت مصر اور کچھ خلیجی ممالک کے تعاون سے شامی حکومت کو دوبارہ پیش کرنے اور اسے عرب لیگ میں دوبارہ ضم کرنے کی کوشش کرتی ہے،یادرہے کہ اردن کے شاہ عبداللہ دوم آج (پیر ، 23 اگست) ماسکو میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کریں گے تاکہ مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا جا سکے ، کریملن کا کہنا ہے کہ ان میں سب سے اہم شام کا بحران ہے۔
واضح رہے کہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اردن 1.3 ملین شامی پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے جبکہ اردن کی وزارت منصوبہ بندی نے اعلان کیا ہے کہ شام کے بحران سے نمٹنے کے لیے اس سال 2.4 ملین ڈالر کی ضرورت ہے،درایں اثنا اردن کے سابق عہدیداروں اور سیاسی ماہرین نے عربی 21 کو بتایا کہ شامی حکومت کے سلسلہ میں میں اردن کی تبدیلی کی وجہ موجودہ صورتحال اور شامی سرزمین پر طاقت کا توازن نیز اردن کی بادشاہت کی جانب سے معاشی فوائد کی تلاش قرار دی ہےخاص طور پر اس وقت جبکہ یہ ملک معاشی بحران کا شکارہے۔
اردن کے سابق نائب وزیر اعظم ممدوح العبادی نے کہا کہ یہ اردن کے مفاد میں ہے کہ وہ شام کے لیے اپنی باہیں پھیلا دے،ہمارے سابقہ موقف نے اردن کو نقصان پہنچایا جہاں ہم نے اپنی سرحدوں کو بند کرنے اور زیادہ مہنگی اشیا درآمد کرنے کے باعث اس ملک کا محاصرہ کیا تھا خاص طور پر معاشی طور پر ترسیل کے اخراجات میں اضافے کے تناظر میں، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ شام کے ساتھ سرحد وں کو بند کرنا اردن کے لیے ایک معاشی قتلگاہ ہے۔