صہیونی

صیہونیوں کے خاتمے تک لہو کے نشاں

تحریر: علی احمدی

اسلام آباد (پاک صحافت) اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے ایک اور مجرمانہ اقدام انجام دیتے ہوئے اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے شہید کر ڈالا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسے اس جرم کا بھاری تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ ولی امر مسلمین امام خامنہ ای مدظلہ العالی نے شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر اپنے پیغام میں اس بات پر زور دیا ہے کہ “ہم شہید ہنیہ کے خون کا بدلہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں”۔ غاصب صیہونی رژیم نے تہران میں نئے ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری سے ایک ہی دن بعد تقریب کے مہمان شہید اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ کر کے میدان جنگ میں اپنی ذلت آمیز شکست کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس مجرمانہ اقدام سے واضح ہوتا ہے کہ صیہونی حکمران اپنے شیطانی اقدامات کے تسلسل میں ایران پر کاری ضرب لگانے کے درپے ہیں۔

اسلامی مزاحمتی قوتوں کو ایران سے دور کرنے کی کوشش
لیکن ایران میں شہید اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ سے صیہونی رژیم کا واحد مقصد یہ نہیں تھا بلکہ وہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر کچھ دیگر اہداف بھی حاصل کرنا چاہتا تھا جن میں سے ایک ایران کے اندرونی سیاسی حالات کو دھچکہ پہنچانا تھا۔ غاصب صیہونی رژیم نے گذشتہ ایک برس کے دوران غزہ جنگ میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے حزب اللہ لبنان اور حماس کے اعلی سطحی فوجی کمانڈروں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ان ٹارگٹ کلنگز کا ایک مقصد اسلامی مزاحمتی بلاک کو کمزور کرنا ہے جبکہ تیسرے ملک میں مزاحمتی بلاک کی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی یہی مقصد ہے۔ تہران میں شہید اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ بھی اسی تناظر میں دیکھنی چاہئے۔ اسی طرح تیسرے ملک میں ایران کے اعلی سطحی کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ کے مقاصد بھی سکیورٹی نوعیت کے ہیں۔

غاصب صیہونی رژیم ایسے اقدامات انجام دے کر اندرونی سطح پر موجود اپنے خلاف شدید دباو کم کرنے اور عوامی ناراضگی ختم کرنے کے درپے ہے۔ دوسری طرف غاصب صیہونی رژیم ایران کے اعلی سطحی فوجی کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ کر کے ایران کو اپنے خلاف براہ راست جنگ میں بھی گھسیٹنا چاہتی ہے تاکہ اس طرح امریکہ کو بھی جنگ میں کود جانے کا جواز فراہم ہو سکے اور غزہ جنگ ایک بھرپور علاقائی جنگ میں تبدیل ہو جائے۔ البتہ ایران نے صیہونی رژیم کے تمام شیطانی اقدامات کا منہ توڑ جواب دیا ہے تاکہ اس کے خلاف ڈیٹرنس پاور برقرار رکھ سکے لیکن ساتھ ساتھ صیہونی رژیم کے خلاف وسیع جنگ شروع کرنے سے بھی گریز کیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو غاصب صیہونی رژیم تہران میں حماس کے اعلی سطحی سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے مختلف قسم کے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم ایک طرف سے چند محاذوں پر اسلامی مزاحمتی بلاک سے نبرد آزما ہے جبکہ اس کے اندرونی حالات بھی شدید خلفشار کا شکار ہیں۔ دوسری طرف اسلامی مزاحمتی بلاک پوری طرح اندرونی طور پر متحد ہے اور یہ حقیقت غاصب صیہونی رژیم کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے جو اسے جنگ کی دلدل میں دھکیلتا جا رہا ہے۔ صیہونی حکمران اپنے اندرونی خلفشار اور انتشار پر قابو پانے میں کافی عرصے سے ناکامی کا شکار ہوتے آئے ہیں لہذا اب انہوں نے مدمقابل یعنی اسلامی مزاحمتی بلاک میں انتشار اور اختلاف ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ تہران میں حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس مجرمانہ اقدام کا ایک مقصد ایران اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان بدبینی اور اختلاف ایجاد کرنا ہے۔ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اس سے پہلے بھی اسماعیل ہنیہ کو شہید کرنے کی کئی کوششیں انجام دے چکی تھی۔

شہید اسماعیل ہنیہ کو تہران میں، خاص طور پر ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری کے بعد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر غاصب صیہونی رژیم ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک کے دیگر اراکین کے درمیان غلط فہمیاں اور دراڑ ڈالنے کے درپے تھی۔ موجودہ حالات میں صیہونی حکمران اپنے وجود کیلئے خطرہ محسوس کر رہے ہیں لہذا اسلامی مزاحمتی بلاک میں اختلاف ان کیلئے بہت زیادہ سودمند اور نجات بخش ثابت ہو سکتا ہے۔ اسلامی مزاحمتی بلاک میں اختلاف نہ صرف صیہونی حکمرانوں کو اندرونی مشکلات پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے بلکہ یوں ان کا اصلی دشمن بھی کمزور ہو جائے گا۔ مختلف ممالک میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی اہم سیاسی اور فوجی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے صیہونی حکمران یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ دنیا بھر میں ان کا جاسوسی نیٹ ورک بہت مضبوط ہے لہذا انہیں پوری طرح ختم نہیں کیا جا سکتا۔

ڈیموکریٹس کیلئے نیا چیلنج
غاصب صیہونی رژیم نے ہمیشہ سے امن مذاکرات نتیجہ بخش ثابت ہونے میں روڑے اٹکائے ہیں۔ ابھی دس دن پہلے ہی صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے امریکہ کا دورہ کیا تھا اور امریکی کانگریس میں تقریر بھی کی تھی۔ البتہ ڈیموکریٹک صدارتی امیداور کملا ہیرس نے اس تقریر میں شرکت نہیں کی اور بعد میں نیتن یاہو سے ملاقات میں غزہ کی صورتحال پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔ نیتن یاہو غزہ جنگ جاری رکھنے کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف زیادہ جھکاو رکھتا ہے۔ گذشتہ چند دنوں میں انجام پانے والی ٹارگٹ کلنگز درحقیقت ڈیموکریٹس کو شدید دباو کا شکار کر دیں گی کیونکہ وہ جلد از جلد غزہ میں جنگ بندی کے خواہاں ہیں۔ اگر ایران کی جوابی کاروائی کے بعد جنگ کی صورتحال جنم لیتی ہے تو امریکہ اسرائیل کا ساتھ دینے پر مجبور ہو جائے گا جس کے نتیجے میں عالمی رائے عامہ میں اس کے خلاف نفرت مزید بڑھ جائے گی جو موجودہ امریکی حکومت کے نقصان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے فائدے میں ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں

مٹنگ

امریکی میڈیا کا بیانیہ؛ افریقہ میں چین کے اثر و رسوخ سے مغربی خوف

پاک صحافت چین میں افریقی ممالک کے سربراہان کی موجودگی کے ساتھ تین روزہ اجلاس …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے