اسلام آباد (پاک صحافت) پاکستان کی آبادی چوبیس کروڑ سے تجاوز کرگئی ہے۔ ملکی آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس میں ہر رنگ و نسل، مذہب و مسلک کے لوگ آباد ہیں۔ گزشتہ ستر برسوں میں ملک کے اندر بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ کئی حوالوں سے پاکستان بہت آگے جاچکا ہے۔ بہت سے شعبوں میں ہمارا ملک کافی ترقی کرچکا ہے۔ اور ترقی کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ بالخصوص دفاعی شعبے میں ہم بہت آگے جاچکے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی آزادی سے اب تک عمارتیں بھی بنیں، کارخانے بھی بنے، دفاتر بھی وجود میں آئے، نئی کالونیاں اور آبادیاں بھی بن گئے، کئی نئے شہر بھی بسائے گئے۔ لیکن اس ملک میں دو نظاموں کا سلسلہ کہیں بھی ختم نہ ہوسکا۔ نہ کسی دفترمیں، نہ کسی شہر میں، کہیں دور دور تک اب بھی ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے۔ جبکہ ہم ایک ایسا ملک چاہتے ہیں جہاں سب شہری آپس میں جڑے ہوں۔ دکھ درد میں شریک ہوں۔
اس مقصد کو پانے کے لئے ہمیں اس دو نظاموں والے سسٹم کو ختم کرنا ہوگا، غریب اور امیر، سرمایہ دار اور طاقتور، عام شہری اور آفیسر یا وزیر کی اولاد میں موجود فرق کو دور کرنا ہوگا۔ جس کے بعد ہم اپنی اگلی نسل کو یہ موقع فراہم کرسکتے ہیں کہ وہ ملک کے شمال میں ہوں یا جنوب، مغرب میں ہوں یا مشرق میں، وہ امیر ہوں یا غریب، ان کا تعلق جس طبقے سے بھی ہو۔ وہ اپنے ملک و ملت کا سرمایہ بن کر اس کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کریں۔
آج عدالتیں غریب و امیر کے لئے الگ ہیں، اسکولز غریب و امیر کے لئے جدا ہیں، اسپتال امیر و غریب کے لئے الگ الگ ہیں، کالج و یونیورسٹیز کی بھی یہی صورت حال ہے۔ آپ کسی بھی ادارے، سسٹم میں چلے جائیں وہاں آپ کو دو طبقاتی نظام نظر آئے گا۔ اگر کسی وزیر، ٹھیکہ دار، بزنس مین یا بڑے آدمی کی اولاد ہے تو اس کو اسی حساب سے ڈیل کیا جاتا ہے اور اگر کوئی کسی غریب شہری کا پیارا ہو تو اسے اسی حساب سے جواب دیا جاتا ہے۔ ہمیں اس فرق کو مٹانا ہوگا۔ ہمیں اس دو طبقاتی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ اس کے بغیر ہم کبھی بحیثیت قوم ترقی نہیں کرسکتے۔ پاکستانی قوم کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی دو طبقاتی نظام ہے۔ جس نے پورے ملک اور اداروں کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ غریب کا بچہ اگر محنت کرکے پڑھ لکھ بھی لے تو نوکری اسے دی نہیں جاتی۔ اگر کوئی ٹیسٹ پاس کربھی لے تو رشوت دینے کے پیسے نہیں ہوتے۔ جبکہ امیر کا بیٹا آسانی سے یہ مراحل طے کرکے اعلی عہدے پر فائز ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اس کے باپ کے پاس پیسہ ہے جبکہ غریب باپ اپنے ارمانوں کا اپنے دل میں ہی خون کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے اس حوالے سے بڑی تقاریر کیں اور بڑے نعرے لگائے۔ عوام کو یہ باور کرایا کہ حکومت میں آنے کے بعد وہ اس دو طبقاتی نظام کا مکمل خاتمہ کرکے تمام شہریوں کے لئے یکساں نظام رائج کریں گے۔ لیکن اب ڈھائی سال گزرنے کے باوجود پی ٹی آئی حکومت ناکام ہی نہیں بلکہ پچھلے ادوار سے زیادہ اسی طبقاتی نظام کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ یہ ایک ملک میں دو نظام ہماری بربادی کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ہے۔