(پاک صحافت) صیہونی حکومت میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام میں بعض فوجیوں کی حمایت کرنے میں بنیاد پرست صیہونیوں کی بدامنی سے نمٹنے میں اسرائیلی پولیس کی ناکامی نے مقبوضہ علاقوں کے اندر نیتن یاہو کی کابینہ کے لیے ایک نیا بحران پیدا کر دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق حالیہ مہینوں میں صیہونی حکومت غزہ کی جنگ کے ساتھ ساتھ کئی بحرانوں اور اندرونی تقسیم کا شکار رہی ہے۔ ان میں سے ایک بحران فلسطینی قیدیوں کے ساتھ اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے غیر قانونی اور امتیازی سلوک کا انکشاف ہے۔
ذرائع کے مطابق حالیہ مہینوں میں 10 صہیونی فوجیوں پر حماس کی ایلیٹ یونٹ کے قیدیوں کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ان لوگوں کو "سیدہ تیمن” بیس میں رکھا گیا تھا اور انہیں معائنے اور مقدمے کی سماعت کے لیے "بیٹ لیڈ” فوجی عدالت میں منتقل کیا گیا تھا۔
اس فیصلے کے بعد، انتہا پسند صیہونیوں کے ایک گروپ نے جو زیادہ تر اسرائیل کے داخلی سلامتی کے وزیر اِتمار بین گوور کے حامی ہیں، نے اس عدالت کی عمارت پر دھاوا بول دیا اور جنسی زیادتی کے الزام میں ملوث فوجیوں کے مقدمے کی سماعت کو روکنے کے لیے اسرائیلی فوج کے ساتھ جھڑپ کی۔
یہ ہنگامہ آرائی چار گھنٹے تک جاری رہی اور آخر کار اسرائیلی فوجی جو پہلے تو انتہا پسندوں کو منتشر کرنے میں ناکام رہے، انہوں نے آنسو گیس کا استعمال کیا اور انہیں منتشر کردیا۔